Kulliyat-e-Shaz ( کلیاتِ شاذ )
زندگی ہم سے ترے ناز اٹھائے نہ گئے
سانس لینے کی فقط رسم ادا کرتے تھے
نمونۂ کلام 👇
جانے کیا قیمت ارباب وفا ٹھہرے گی میں اگر عرض کروں گا تو خطا ٹھہرے گی نوک نشتر سے کھلائی گئیں کلیاں کتنی جانے اس شہر کی کیا آب و ہوا ٹھہرے گی رقص پروانہ کی گردش جو تھمے آخر شب اہل محفل کے لیے یہ بھی ادا ٹھہرے گی آج کے دور میں ویرانے بھی تعمیر ہوئے کل کی تہذیب خدا جانیے کیا ٹھہرے گی مدتوں بعد کسی بند دریچے کے قریب کیا خبر تھی مری رفتار ذرا ٹھہرے گی تری آواز مرے واسطے صحرا کا سکوت میری خاموشی رہ و رسم دعا ٹھہرے گی لوگ رہتے ہیں یہاں خالی مکانوں کی طرح کس کے دروازہ پہ دستک کی صدا ٹھہرے گی شاذؔ ادھر خواب کے دریا پہ ملے گا کوئی ایک پرچھائیں سر آب سنا ٹھہرے گی
شاعر : شاذ تمکنت